ہنگامی اجلاس لاہور (بین المذاہب امن کمیٹیوں میں کرپٹ اورنااہل لوگوں کو سرپرستی دینے پر صوبائی حکومت کیخلاف عدم اعتماد )

 بمقام :  لاہور        زیراہتمام :  بین المذاہب امن اتحاد پاکستان    خصوصی تعاون: تنظیم مشائخ عظام پاکستان
زیر صدارت:  محترم صوفی مسعوداحمدصدیقی لاثانی سرکارصاحب (امیر تنظیم مشائخ عظام پاکستان وچیئرمین بین المذاہب امن اتحاد پاکستان )
شرکائے اجلاس :  لاہور میں منعقدہ تنظیم مشائخ عظام پاکستان کی صوبائی باڈی کے اجلاس میں حکومت پر عدم اعتماد کے فیصلے کی رپورٹ امیر تنظیم صوفی مسعود احمد صدیقی لاثانی سرکار کو حتمی منظوری کے لئے پیش کر دی گئی جس پر آئندہ چند روز میں تنظیم مشائخ عظام پاکستان کی مرکزی باڈی کا اجلاس طلب کر لیا گیا جس میں امیر تنظیم کے ساتھ ساتھ تنظیم مشائخ عظام پاکستان کے چاروں صوبائی وضلعی کو آرڈینیٹرز اور مرکزی مجلس شوریٰ کے اراکین اورذمہ داران نے شرکت کی۔
اجلاس کا مقصد:   نااہل حکومت کے بارے میں میڈیا کے ذریعے عوام الناس کویہ آگاہی دینا کہ اس نے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر امن کمیٹیوں میں نااہل اورکرپٹ عناصر کو نہ صرف نمائندگی دی بلکہ انہیں سرپرستی بھی دی ،جس سے اقوام عالم میں اسلام اورپاکستان کی بدنامی ہوئی ۔صدر پاکستان اوروزیر اعظم فوراًاس معاملے پر ازخود نوٹس لیں۔
اجلاس کی تفصیلی کاروائی :  
(ق) لیگ کی صوبائی حکومت پر عدم اعتماد کئے جانے کی وجوہات:  
٭…تنظیم مشائخ عظام پاکستان مختلف سلاسل طریقت سے تعلق رکھنے والے مشائخ عظام اورصوفیاء کرام کی پاکستان میں سب سے بڑی نمائندہ جماعت ہے۔جس میں شامل مشائخ کی اکثریت مسلم لیگی نظریات کی حامل ہے۔یہی مشائخ عظام قائد اعظم اور امیر ملت سرکار  والی مسلم لیگ کے حقیقی وارثین ہیں۔اسی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ (ق ) نے گزشتہ الیکشن میں تنظیم مشائخ عظام پاکستان کی حمایت و تائید سے بیشتر نشستوں میں کامیابی حاصل کی اوریہ سب مشائخ کی دعائوں ،روحانی تصرفات اور عملی تعاون کی بنا پر ممکن ہوا۔پاکستان مسلم لیگ (ق) کے بے شمار قائدین نے مشائخ کو یہ یقین دہانی کروائی تھی کہ مشائخ کو تمام معاملات میں اعتماد میںلیاجائے گا اور ان کی رائے کو نظرا نداز نہ کیا جائے گا۔لیکن ایسا نہ ہوا اور اس کی بجائے کرپٹ اور بدنام زمانہ لوگوں کو مشائخ عظام پر فوقیت دی گئی ۔
٭…پاکستان مسلم لیگ (ق) کے صوبائی جنرل سیکر ٹری چوہدری ظہیر الدین پر مشتمل ایک مخصوص گروپ عوامی سطح پر پاکستان مسلم لیگ (ق) کی جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف عمل ہے ۔مشائخ عظام نے بارہا مسلم لیگی اکابرین اور قائدین کو اس بات کا احساس دلایا کہ یوں دکھائی دیتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ق) کو ایک سازش کے تحت مسلسل نقصان پہنچایا جا رہا ہے اور مسلم لیگ کی ساکھ بری طرح متاثر ہورہی ہے جس کی وجہ سے مشائخ اور ان سے وابستہ لاکھوں افرادبھی پاکستان مسلم لیگ (ق) سے متنفر اور بددل ہوچکے ہیں۔
٭…اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ محب وطن مشائخ اب خاموش نہیں رہ سکتے اور جس کے لئے عوامی رابطہ مہم کا بھی جلد اعلان کر دیا جائے گا ۔اجلاس میں مشائخ نے صدر پاکستان جنرل پر ویز مشرف اور وزیر اعظم پاکستان شوکت عزیز سے مطالبہ کیا کہ وہ فوراً از خود نوٹس لیں اور اگر اب بھی مشائخ کو اعتماد میں نہ لیا گیا تو مشائخ ملک گیر تحریک کا اعلان کر دیں گے ۔
٭…مشائخ نے اجلاس میں اتفاق کیا کہ بین المذاہب امن کمیٹیوں کے نام پر کر پٹ اور بدنام زمانہ افراد کو بار بار مسلط کرنا اسلام اور پاکستان کی بدنامی کا باعث اور پارٹی سے غداری کے مترادف ہے ۔جس پر شدید احتجاج کر تے ہوئے مسلم لیگی نظریات رکھنے والے سینکڑوں مشائخ نے حکومت پنجاب کی موجودہ سیا سی قیادت کے خلاف عدم اعتماد کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے ۔مشائخ نے اپنے مشترکہ بیان میں کہا ہے کہ جید مشائخ (اولیاء اللہ ) اور لاکھوں نظریاتی مسلم لیگی افراد کی تجاویز اور مطالبات کو نظر انداز کرنا حکومت کی سنگین غلطی اور بدبختی کی علامت ہے ۔لاہور میں منعقدہ صوبائی اجلاس کے فیصلے سے مرکزی امیر مسعوداحمد صدیقی لا ثانی سرکار کو آگاہ کر دیا گیا ہے ۔جس پر آئندہ چند دنوں میں چاروں صوبائی کوارڈینیٹرز اور مرکزی مجلس شوری کا اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے ۔
٭…تنظیم مشائخ عظام پاکستان کے ترجمان نے بات چیت کر تے ہوئے بتایا کہ تاحال حکومت مشائخ عظام کے تحفظا ت قائم رکھنے میں ناکام رہی ہے ۔انھوں نے بتایا کہ نواز دور میں بھی ایک مخصوص لابی نے قانون توہین رسالت کا غلط استعمال کرتے ہوئے مشائخ عظام کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا تھا جس کے لئے مشائخ عظام نے عملی طور پر جد و جہد کر کے اس کا سدباب کیا تھا۔اگرچہ حکومت نے مشائخ سے متعلق کئی کمیٹیاں تشکیل دی ہیںجیسے نیشنل صوفی کونسل وغیرہ لیکن ان کمیٹیوں میں مشائخ کو نمائندگی دینے کی بجائے چند نا اہل سیاستدانوں نے ذاتی مفادات کی خاطر کرپٹ افراد کو شمولیت دی جس کی وجہ سے ان کمیٹیوں کی افادیت ختم ہو گئی ہے۔ اسی طرح بین المذاہب امن کمیٹیوں میں بھی نمائندگی سیاسی بنیادوں پر کی گئی ۔جبکہ یہ تمام معاملات روحانی و دینی شخصیات سے متعلق ہیں ۔مشائخ عظام کسی صورت بھی ان سیاسی ٹائوٹ کی زیر سرپرستی کا م نہیں کر سکتے ۔مشائخ سے وابستہ لاکھوں لوگ اسی وجہ سے حکومت سے متنفر ہو رہے ہیں اور حکومت کی بدنامی کا بھی یہی سبب ہے۔
٭…حکومت تنظیم مشائخ عظام پاکستان کے بیشتر مطالبات پورے کرنے میں ناکام رہی ہے ۔سودی نظام کا خاتمہ کے لئے مشائخ عظام نے حکومت کو یہ تجویز دی تھی کہ قرضہ روپے کی بجائے سونے کی صورت میں دیا جائے، کیبل اور انٹر نیٹ پر چلنے والے فحش چینلز پر پابندی، اعراس کے موقع پر نا چ گانا پر پابندی لگائی جائے ۔جب اعراس کی انتظامیہ سرکاری اہل کاروں کے سپرد کی جائے گی تو یہی صورت نکلے گی لیکن اگر ان اعراس کی انتظام مشائخ عظام کے سپرد کیا جائے تو یہی اعراس روحانیت اور صوفی ازم کے فروغ کا بہترین سبب بنیں گے اور تمام لغویات کا خاتمہ ہو جائے گا۔فرقہ وارانہ اور متشدد لٹریچر پر پابندی لگائی جائے تاکہ فرقہ واریت اور دہشت گردی کا خاتمہ کیا جائے ۔مگر بے شمار نام نہاد جہادی گروپس نام تبدیل کر کے ابھی تک ان فرقہ وارانہ سرگرمیوں میں مبتلا ہیں۔

بین المذاہب اجلاس