سالانہ عالمی امن کی ضمانت سیمینار بسلسلہ ولادت ابنِ مریم حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام 2014

    آستانہ عالیہ لاثانی سرکار پر ہر سال کیطرح اس سال بھی جشن عید میلادالنبی ۖ اور یوم ولادت حضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام (کرسمس )کے موقع پر محفل ذکر و نعت و سماع اور امن سیمینار کا انعقاد کیا گیا ۔جس کی صدارت قائد روحانی انقلاب صوفی مسعود احمد صدیقی لاثانی سرکار (چیئرمین بین المذاہب امن اتحاد پاکستان ،امیر تنظیم مشائخ عظام پاکستان ،چیئرمین لاثانی ویلفیئر فائونڈیشن (رجسٹرڈ)انٹرنیشنل ) نے کی۔مہمان خصوصی بشپ جان سیموئیل (بشپ آف فیصل آباد )تھے۔محفل کاآغاز تلاوت قرآن پاک سے ہوا ،جس کی سعادت حاجی محمد منشاء نقشبندی نے حاصل کی۔پھر آقائے کل حضور نبی کریم ۖ کی شان میں گلہائے عقیدت پیش کرنے کی سعادت صاحبزادہ پیر شبیر احمد صدیقی نقشبندی صاحب نے حاصل کی۔سالانہ امن سیمینار میں ہر سال کیطرح اس سال بھی  یوم ولادت حضور سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کے موقع پران کی شان میں منقبت شریف صاحبزادہ پیر شبیر احمد سرکار صاحب نے نہایت عقیدت و احترام سے پڑھی۔جسے مسیحی برادری میں بہت ہی مقبولیت حاصل ہے ۔اسکے بعد مہمان گرامی نے اپنے خیالات کا اظہار کیااور محفل کے اختتام پر صوفی مسعود احمد صدیقی نے ملک و قوم کی بہتری کے لیے دعا کی۔ 
بیان بشپ جان سیموئیل (بشپ آف فیصل آباد)
سب سے پہلے تو میں اس مبارک محفل کیلئے خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ خدا نے آج موقع دیا اس مبارک جشن عید میلادالنبی ۖ کیلئے کہ ہم سارے آج یہاں اکٹھے ہوئے ،آپ سب کو بھی مبارک دیتا ہوں خدا آپ خوشیاں دے ،برکت دے ،میں سمجھتا ہوں کہ نبیوں کا آنا ،انکی آمد یہ خداوند کی جانب سے ہے اور یقیناوہ برکت کیلئے آتے ہیں اور خدا کو دکھانے کیلئے ،خدا کو ظاہر کرنے کیلئے آتے ہیں۔خدا کو دیکھنے کی خواہش تو شروع سے انسان کی طلب رہی ہے ۔پہلے انسان حضرت آدم  اور اماں حوا  کی شیطان نے جب ورغلایا تھا کہ اگر تم یہ پھل کھائو گے تو تمہیں خدا کی طرح نیک وبد کو جاننے لگو گے اور تمہاری آنکھیں کھل جائیں گی۔اور جب انہوں نے کھا لیا تو انہیں واقعی علم ہوا کہ ان کی آنکھیں کھل گئیں اور انہیں جنت سے نکا ل دیا گیا ۔ایک مرتبہ بنی اسرائیل نے حضرت عیسٰی  سے کہا کہ ہم اس خدا کو دیکھنا چاہتے ہیں جس خدا کی تو عبادت کرتا ہے ۔تو موسیٰ نے خدا سے درخواست کی کہ میری قوم تجھے دیکھنا چاہتی ہے ۔توخدا نے کہا کہ اپنی لوگوں کو کہو کہ تین دن تک اپنے آپ کو پاک صاف کریں اور تین دن کے بعد میں کوہ سینہ پر اتروں گا ۔جب تیسرا دن آیا تو پہاڑ دھوئیں سے بھر گیا ،اور بجلی چمکنے لگی اور بادل گرجنے لگے ،لوگوں پر ایک خوف اور ایک دہشت چھا گئی ۔تو لوگوں نے موسٰی  سے کہا کہ ہم میں خدا کو دیکھنے کی جرات نہیں ہم آپ سے ہی خدا کی باتیں سن لیا کریں گے ۔اسی طرح بابل (عراق) لے لوگوں میں یہ تجسس پیدا ہوا کہ ہم خدا تک پہنچ جائیں چنانچہ انہوں نے ایک برج بنا نا شروع کیا جس کو آسمان تک پہنچانا تھا تاکہ خدا تک پہنچ سکیںاور خدا کو دیکھ سکیں کہ خدا کیسا ہوتا ہے ۔لیکن خدا نے ان کی زبانوں میں اختلاف پیداکر دیا ،نہ وہ برج بن سکا اور نہ ہی وہ آسمان تک پہنچ سکے اور نہ ہی خدا کو دیکھ سکے ۔تو یہ تمنا ،یہ آرزو پچھلی صدی تک قائم رہی ۔علامہ اقبال جنہیں پاکستانی شاعر کہا جاتا ہے انہوں نے کہا تھا کہ 
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آلباس مجاز میں         کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے تری ایک جبین نیاز کو 
انسان خدا کو دیکھنا چاہتا ہے ،انسان خدا کو لباس مجاز میں دیکھنا چاہتا ہے ،روبر و دیکھنا چاہتا ہے ،آمنے سامنے دیکھنا چاہتا ہے ۔لیکن یہ کیسے ممکن ہے ،میں آج اس عید میلاد النبی ۖ کے موقع پر کہنا چاہتا ہوں کہ جو انبیاء کرام اور پیغمبر تشریف لائے اور یہ اولیاء کرام تشریف لائے وہ اسی لیے آئے کہ خدا کو ظاہر کر سکیں ،اسے دکھا سکیں ،میرے نزدیک یہی ان کے آنے کا بڑا مقصد تھا ۔تو اس وقت ہمارے لیے یہ ایک بڑا چیلنج بھی ہے لکھا ہے کہ خدا ابتری کا نہیں بلکہ امن کا بانی ہے ۔تو خدا نے اپنے بندوں کو مقرر کیا کہ لوگوں کو امن کا راستہ ،آشتی کا راستہ دکھایا جائے ۔خدا تک پہنچنے کا راستہ دکھایا جائے ۔لیکن افسوس کیساتھ یہ کہنا پڑھ رہا ہے کہ کچھ راستہ دکھانے والوں نے گمراہ کیا ،بجائے اسکے کہ امن کا راستہ دکھایا جاتا ، خدا تک پہنچنے کا راستہ دکھایا جاتا، جنگ و جدل کے راستے پر ڈال دیا گیا۔میں اکثر یہ کہتا ہوں کہ یہ شر کا پودا بڑھ کر اتنا پھل آور درخت بن گیا کہ سنبھالے نہیں سنبھل رہا ہے ۔جبکہ عوام بھی کوشش کر رہی ہے ،پولیس بھی ،فوج بھی لیکن اس شر کو ختم نہیں کیا جا سک رہا ۔مگر ان سب باتوں کے باوجود میں صوفی مسعود احمد صدیقی لاثانی سرکار صاحب کیلئے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ان سے جب بھی ملے ،میری ان سے جتنی بھی ملاقاتیں ہوئیں ۔انہوں نے ہمیشہ امن کی بات کی ہے ،صلح کی بات کی ہے ۔ہمیں یہ پتا چلا ہے کہ لاثانی سرکار نے 1998 ء سے بہت سے سیمینار ،کنونشن اور پروگرام منعقد کیے ،اور ہمیشہ امن کیلئے سوچا ۔میں اپنے لیے،اور دیگر مسیحی بھائیوں کیلئے بڑی عزت افزائی کی بات سمجھتا ہوںکہ انہوں نے ہمیں بلایا ،عز ت بخشی تو میں لاثانی سرکار کا ،آپ سب کا شکر گزار ہوں ۔اور اس ماحول میں ،ایسے حالات میں حضرت عیسٰی کا نام لیا جانا ، یسوع مسیح کا نام لیا جانا ہمارے لیے بڑی دلیری کی بات ہے ۔ایک مرتبہ میں سمندری میں کرسمس کے موقع پر گیا جہاں اسی قسم کی محفل کا اہتمام تھا بہت سے دوسرے لوگ آئے ہوئے تھے ،اور وہ سب یہ کہہ رہے تھے کہ مسیحی بھایوں کو بڑا دن مبارک ہو ،جب میری باری آئی تومیں نے انہیں کہا کہ قرآن پاک میں 34 بار حضرت عیسٰی  کا اور اماں مریم   کا ذکر آیا ہے اور 2 صورتیں مکمل سورة ال عمران اور سورة مریم موجود ہیں تو بڑا دن صرف مسیحی بھائیوں کو ہی کیوں مبارک ہو ،تو سب نے میری اس بات کو سراہا ،لیکن آستانہ عالیہ لاثانی سرکار پر ہمیں جو عزت ملتی ہے وہ بے مثال ہے ۔میں شکریہ ادا کرتا ہوں ،صدیقی لاثانی سرکا ر کا ،ان کے صاحبزادے کا جو انہوں نے حضرت عیسٰی  کی شان میں خوبصورت آواز میں گیت پڑھا ۔اللہ انہیں اور برکت دے کہ انہوں نے ہمارا حوصلہ بڑھایا ہے ۔ایک اور بات بھی ہے کہ یہاں بہت کھلے ذہن ہیں ،تنگ نظری نہیں ہے ،کشادہ دلی ہے ۔اس لیے میں ان کی تعریف بھی کرتا ہوں ،ان کا شکریہ بھی ادا کرتا ہوں ،اور پیر صاحب لاثانی سرکار کی بڑی بات یہ ہے کہ وہ ہمیشہ نیکی ،بھلائی ،امن اور پیار کی بات کرتے ہیں ،شر کی بات نہیں کرتے ،دوسروں کو قبو ل کرتے ہیں  جس طرح آج بھی انہوں نے مظاہرہ کیا ،میں اس مظاہرے کیلئے خداوند کا شکر ادا کرتا ہوں۔آج ہمارے لیے بہت بڑا چیلنج ہے کیو نکہ شر بہت پھیل چکا ہے اب اگر علماء ،صوفیا ء کرام یا میں اپنی اور لاثانی سرکار کی بات کروں تو ہم سب ہی اس شر کو سنبھالنے میں لگے ہوئے ہیں۔اگر آگ لگی ہوئی ہو اور اس میں پانی ڈالا جائے تو وہ بجھ جاتی ہے ۔اور کپڑا اگر پھٹا ہوا ہو اسے سی لیا جائے تو وہ پہننے کے قابل ہو جاتا ہے ۔ لیکن اگر نہ سیا جائے تو وہ لیر و لیر ہو جاتا ہے تو ہمارے لیے لاثانی سرکار صاحب کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔وہ جو امن کا پیغام پھیلا رہے ہیں قابل تعریف ہے اور ہماری دعا ہے کہ اس کو اور زیادہ سے زیادہ ترقی ملے۔کسی نے ایک مرتبہ دیکھا کہ ایک جگہ آگ لگی ہوئی ہے اور ایک چڑیا منہ میں پانی لینے کیلئے جا رہی ہے ،تو اس نے چڑیا سے پوچھا کہ کیا اس ایک گھونٹ سے آگ بھج جائے گی ،تو چڑیا نے کہا کہ مجھے پتا ہے کہ آگ اس ایک گھونٹ سے تو نہیں بجھے گی مگر جب آگ بجھانے والوں کا نام لیا جائے گا تو اس میں میرا بھی نام آئے گا۔تو ہم جہاں بھی ہوں جس حال میں بھی ہوں ہمیں اس آگ کو بجھانا ہے جو دہشت گردی کی صورت ہمارے ارد گرد پھیلی ہوئی ہے ۔تاکہ ہم اپنے ملک کو اپنی قوم کو امن فراہم کرسکیں ۔اپنے ملک کو ایک ترقی یافتہ اور امن کے نام سے جانا جاتا ہو۔خدا آپ سب کو برکت دے۔آمین
بشپ شمس پرویز 
آج چنیوٹ میں جشن عید میلا دالنبی ۖ منانے کا موقع ملا ،مگر جو سکون ،اپنائیت اور گھروالا سکون ہمیں لاثانی سرکار کی محفل میں ملا وہ کہیں نہیں ملا ،وہاں مجھے ایسا لگا کہ میں مہمان ہوں اور یہاں مجھے ایسا لگا ہے کہ میں میزبان ہوں اور آپ لوگ مہمان ہیں،اور میں نے ان کو کہا کہ ابھی آپ کو بہت کچھ سیکھنا ہے ،اور اگر بین المذاہب امن اتحاد کا فن سیکھنا ہے تو ہمارے اپنے آستانے پر آئو تو لوگ پوچھنے لگے کہ کیا آپ اپنے چرچ کو آستانہ کہتے ہیں تو میں نے کہا کہ نہیں ہمارا آستانہ لاثانی سرکارکا آستانہ ہے ۔وہ ان کا بھی اتنا ہی ہے جتنا ہمارا ہے ۔ہم ایک ہی ہیں ،ایک ہی خاندان ہیں ،ہماری یہی کوشش ہے کہ کرسمس کی خوشیاں اور جشن آزادی کی خوشیاں مل جل کر ایسے منائیں کہ پتا ہی نہ چل سکے کہ یہ خوشیاں کرسچین منا رہے ہیں یا مسلمان منا رہے ہیںاور یہاں ایسا ہو رہا ہے اور پیار کی یہ ریت جو لاثانی سرکار نے ڈالی ہے ۔اسی وجہ سے ہم بھی گزشتہ سال جشن عید میلاد النبی ۖ کے موقع پر کینڈل لائٹ کا جلوس لیکر آئے ،ہمارا شاندار استقبال کیا گیا ۔پھر ہم سب نے مل کر عید میلاد النبی ۖ کی خوشیاں منائیں۔اور آئندہ سال ہم پورا ایک ہفتہ عید میلاد النبی ۖ کے موقع پر  ریلی لیکر آیا کریں گے۔اور یہ توفیق اس لیے ہے کہ مجھے تھپکی مل چکی ہے لاثانی سرکار کی جانب سے ،خداوند ان کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے ۔مسیحیوں کی جانب سے عید میلاد النبی ۖ بہت بہت مبارک ہو۔
راشد ساجد گل (ممبر بین المذاہب کونسل و انسانی حقوق)
عشق دی اگاں نہیں لائیاں جاندیاں         جے لگ جان فیر نئیں بجھائیاں جاندیاں
تن من وار کے  دسیا  حسین     نے         ایویں تے نئیں اپنیاں منائیاں جاندیاں
ڈنگ سئے سئے  کے  صدیق    دسیا        ایویں تے نئیں یاریاں نبھائیاں جاندیاں
مکھ  ہووے  یار  دا  دیدار  سامنے         ایویں تے نئیں گردناں کٹائیاں جاندیاں
میرے دوستوں ساتھیوں میری یہ دیرینہ خواہش تھی لاثانی سرکار کی محفل میں آنے کی اور میں قربان جائوں جشن عید میلادالنبی ۖ کے اس مبارک دن پر جس نے میر ی یہ خواہش پوری کر دی۔اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی ہزاروں عیدیں سوہنے حضور ۖ کے صدقے اکٹھے منانے کی توفیق عطا فرمائے۔میرا تعلق بین المذاہب کونسل و انسانی حقوق سے ہے جس کا مقصد دکھی انسانیت کی خدمت کرنا ہے ۔انسان سکھ ہو یا کرسچین ،انسان مسلم ہو یا مسیحی ،انسان سنی ہو یا اہل حدیث بحیثیت انسان وہ ہمارا بھا ئی ہے ،کیونکہ اللہ پاک نے اپنے پاک کلام میں یہی ارشاد فرمایا،ہمارے نبی ۖ نے حجتہ الوداع کے موقع پر بھی ارشاد فرمایا،کہ اے لوگوں تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ (آدم )
ایک ہے۔اللہ جل شانہ نے فرشتوں سے فرمایا کہ اگر میں اپنے حبیب ۖ کو پیدا نہ کرتا تو کسی کو پیدا نہ کرتا۔آپ ۖ نے فرمایا کہ کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کسی کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر کوئی فوقیت نہیں ،مگر جس میں خوف خدا سب سے زیادہ ہے ۔اگر یہ چیزیں ہم اپنا لیں تو ہماری ساری پریشانیاں ختم ہو سکتی ہیں۔
اج اکھا ں وارث شاہ نوں اٹھ قبر اںوچوں بول         ہن کتابے عشق دا کوئی اگلاورقہ کھول

سالانہ کرسمس پروگرام